رہبر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈروں، اہلکاروں ،جوانوں اور آپ تمام عزیز بھائیوں کو خوش آمدید پیش کرتاہوں اور اس عظیم دن کی اور اس عظیم یادگار واقعہ کی مناسبت سے آپ سب کو مبارکباد کہتا ہوں۔ میں ان افراد کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے انیس بہمن مطابق آٹھ فروری کے اس واقعہ کو بے حد اہم اور انتہائی حساس حالات میں جنم دیا۔ محترم کمانڈر (1) کی گفتگو اور رپورٹ پر ان کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں، جو بامعنی و با مقصد ترانہ پیش کیا گیا اس پر بھی میں آپ کا شکر یہ ادا کرتاہوں۔
بعض واقعات ظاہری طور پر نظر آنے والے اپنے انداز اور اپنی شکل و صورت سے کہیں زیادہ باعظمت ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی واقعہ بڑی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے اتنی گہرائی اور وسعت حاصل کر لیتا ہے کہ اسے انجام دینے والوں کو بھی اس کی توقع نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: 'یعجب الزّرّاع' (2) پیغمبر اسلام (ص)کے اصحاب، صدر اسلام کے مؤمنین اور عظیم مجاہدین کی تصویر کشی کرتے ہوئے کچھ صفات بیان کرتا ہے۔ ان کی مثال اس نازک پودے سے دیتا ہے جو مٹی کے نیچے سے نمودار ہوتا ہے، پھر رفتہ رفتہ اس میں استحکام اور مضبوطی آتی ہے اور پھر نشونما کے مراحل اس انداز سے طے کرتا ہے کہ وہ لوگ بھی دیکھ کر مسرت اور حیرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جنہوں نے اس کا بیج بویا تھا۔ 19 بہمن مطابق 8 فروری کا واقعہ اس قسم کا واقعہ تھا۔ اس زمانے میں اس واقعہ کے مختلف پہلو اور جوانب اتنے واضح نہیں ہوئے تھے۔ یہ پہلو بتدریج اوررفتہ رفتہ سامنے آئے ہیں۔ یہی صورت حال وسیع تر اور اعلی تر سطح پر خود اسلامی انقلاب کی ہے۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے جب سنہ انیس سو باسٹھ میں اس تحریک کا آغاز کیا تو اس کا یہ وسیع انداز، یہ حیرت انگیز کارنامہ کسی کے بھی ذہن میں نہیں آسکتا تھا لیکن بعد میں یہ کارنامہ انجام پایا۔ کوئی واقعہ ایک عظیم واقعہ میں تبدیل ہوتا ہے تو اس کی کچھ وجوہات ہوتی ہیں۔ البتہ اس وقت یہ ہمارا موضوع بحث نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ انیس بہمن مطابق آٹھ فروری کا واقعہ انتہائی بابرکت اور عظیم واقعہ تھا۔ اس عظیم واقعہ کے تجزئیے میں جو نکتہ اب تک مورد توجہ قرار نہیں پا سکا وہ استقلال اور خود مختاری کے حصول کے سلسلے میں اس عظیم واقعہ کے اثرات ہے۔ کہاں استقلال و خود مختاری؟ فوج کے اندر خود مختاری۔ یعنی طاغوتی شاہی دور کے نظام کے اہم رکن کا درجہ رکھنے والی فوج، اغیار کے تسلط اور مداخلت سے بہت زیادہ تکلیفیں اٹھا رہی تھی۔ 8 فروری کے واقعہ سے اس ادارے کے اندر خود مختاری اور استقلال کا احساس پیدا ہوا۔ اس واقعہ نے یہ احساس فوج کے ہر شعبے میں، یعنی پہلے فضائیہ میں اور پھر دیگر شعبوں میں عام کر دیا کہ سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کے چنگل سے آزاد ہوکر کام کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے میں ابھی دوستوں سے یہی کہہ رہا تھا کہ (3) سب سے پہلے جس شعبے میں خود اعتمادی اور خود انحصاری کا جہاد شروع ہوا وہ فضائیہ کا شعبہ ہے۔ پھر رفتہ رفتہ پوری فوج میں یہ ولولہ اور جذبہ بیدار ہو گیا۔ استقلال ، خود مختاری اور خود اعتمادی کا یہ جذبہ فوج کے لئے خاص اہمیت رکھتا تھا، مسلح فورسز کے لئے اس کی خاص اہمیت تھی اور یہ چیز آج بھی بے حد اہم ہے۔ اسی طرح مستقبل کے لئے بھی یہ بہت ضروری ہے۔ میں یہ بات ضمنا عرض کر دوں ورنہ میری بحث کا موضوع کچھ اور ہے، کہ اگر آپ اپنی اس موجودہ پوزیشن میں جو در حقیقت فضائی حدود کی حفاظت پر مبنی ہے، خطرات کے مقابلے میں اپنی مہارت و توانائی کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ کے اندر غیروں سے بے نیازی اور خود اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں پر انحصار کا جذبہ پیدا ہو۔ جب یہ صورت حال ہوگی تو پھر صلاحیتوں پر نکھار آئے گا، جیسا کہ آج تک ہم دیکھتے آئے ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ استقلال و خود مختاری اور حق خود اعتمادی کا مسئلہ ملک کے لئے بھی اور اسلامی انقلاب کے لئے بھی بہت اہم ہے ۔ خود مختاری شروع سے ہی اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کا بنیادی ستون رہی ہے۔ آزادی کے نعرے کے ساتھ خود مختاری کا نعرہ اسلامی انقلاب کے اہم ترین نعروں کا حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔ مزیدپڑھنے کےلیے یھاں کلک کرے
استعمار کی قدیم پالیسی کی ناکامی یعنی براہ راست استعماری قبضے کی پالیسی کے ناکام ہو جانے کے بعد جو پہلے رائج تھی اور جس کے تحت دیگر ملکوں پر براہ راست قبضہ کر لیا جاتا تھا، پھر ایک نئی استعماری روش نے اس کی جگہ جنم لیا۔ جدید استعمار کی صورت کچھ ایسی ہے کہ تسلط پسند بیرونی طاقتیں اب ملکوں پر براہ راست استعماری قبضہ نہیں کرتیں بلکہ وہ اپنے ایجنٹوں ، آلہ کاروں اور ان سے ڈکٹیشن لینے والے افراد کو دیگر ممالک پر مسلط کرتیں اور ان پر پوری طرح انحصار کرنے والے عناصر ملکوں کی باگڈور سنبھالتے تھے، چونکہ بیرونی طاقتوں کے رحم و کرم پر چلنے والی حکومت ملک کے اندر استبداد کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی تھی لہذا یہ حکومتیں ظالمانہ انداز میں ملک کو چلاتی تھیں اور بیرونی طاقتوں کے مفادات کی نگرانی اور حفاظت پر مجبور ہوتی تھیں۔ یہ جدید استعمار تھا۔ ملک کے اندر پھیلے استبداد سے مقابلہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس بیرونی طاقت کا مقابلہ نہ کیا جائے جو اس استبدادی حکومت کی پشت پر ہے۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ فرض کیجئے کہ ظالم حکام کے استبداد سے عاجز آجانے والی ایک قوم قیام کرے، انقلاب برپا کرے اور اس مستبد و طاغوتی طاقت سے مقابلہ پر اتر جائے لیکن اس استبدادی حکومت کی پشت پر جو بیرونی طاقتیں تھیں ان سے آشتی کر لے تو اس انقلاب اور انقلاب کے رہنماؤں کا انجام یا تو شکست یا پھر خیانت پر مبنی ہوگا۔ ان دو کے علاوہ کوئی تیسری صورت نہیں ہو سکتی۔ ایسی صورت میں یہ رہنما اپنی قوم اور اپنے وطن سے خیانت کے مرتکب ہوں گے اور اگر خیانت نہیں کریں گے تو پھر شکست ان کا حتمی انجام ہوگی اور وہ میدان سے بالکل غائب ہو جائیں گے۔ جیسا کہ ہم نے چند سال کے دوران علاقے کے ملکوں میں آنے والے انقلابات کے سلسلے میں دیکھا کہ مستبد حکمراں کے خلاف قیام تو کیا گیا لیکن اس حکمراں کی پشت پر موجود طاقت کی طرف سے غفلت برتی گئی یا پھر اس سے مفاہمت و صلح اور دوستی و رواداری کا راستہ اختیار کیا گیا، نتیجہ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ ظالم حکمراں کے خلاف بغاوت اور استعماری طاقت سے مفاہمت کی روش سے کوئی نتیجہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ انقلاب وہی کامیاب ہوگا جو ظالم حکمراں کی پشت پر موجود مداخلت پسند طاقت پر بھی گہری نظر رکھے اور اس کے خلاف بھی جدوجہد کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے نوجوانوں نے تہران میں امریکی جاسوسی کے مرکز (تہران میں واقع امریکی سفارت خانے) پر قبضہ کر لیا اور امریکہ کو اس کی حقارت کا احساس دلایا تو حضرت امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ یہ پہلے انقلاب سے زیادہ بڑا انقلاب ہے۔ پہلا انقلاب بھی ظاہر ہے کہ بے حد عظیم اور بہت بڑا انقلاب تھا لیکن یہ جو دوسرا اقدام انجام پایا اس سے ایرانی قوم نے ثابت کر دیا کہ مشکلات اور بحران پیدا کرنے والے دوسرے محاذ سے بھی مکمل واقفیت رکھتی ہے اور اس کا بھی مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ اورکمر بستہ ہے۔
استقلال اور خود مختاری کی حقیقت یہاں سمجھ میں آتی ہے۔ خود مختاری یہ ہے کہ ملک مداخلت کرنے والی طاقتوں کو بخوبی پہچانتا ہو، اس کا مقابلہ کرے اور اس کے سامنے سینہ سپر رہے۔ خود مختاری کا مطلب ساری دنیا سے بداخلاقی کرنا نہیں ہے۔ خود مختاری کا مطلب ہے اس طاقت کا مقابلہ جو مداخلت کی فکر میں ہے، جو دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش میں ہے، جو اپنے مفادات کے لئے ایک پوری قوم کی عزت و آبرو کو نیلام کر دینے پر آمادہ رہتی ہے۔ اسے کہتے ہیں خود مختاری۔ کسی بھی قوم کی مختاری کا دشمن کون ہوتا ہے؟ بیرونی طاقتیں، مداخلت پسند طاقتیں۔ انہیں کسی بھی ملک کے اندر استقلال خود مختاری کا جذبہ پیدا ہونے پر تشویش لاحق ہو جاتی ہے۔ وہ اس جذبے سے ہراساں رہتی ہیں اور ہمیشہ کوشش کرتی ہیں کہ کسی بھی قوم کے اندر، کسی بھی ملک کے رہنماؤں اور لیڈروں کے اندر اگر یہ جذبہ بیدار ہو رہا ہے تو اسے کمزور کر دیں۔ ان طاقتوں کے نشریاتی اور تبلیغاتی ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں اور قوموں کو خود مختاری کی متعلق بد ظن کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ملکوں کی سیاسی خود مختاری یا ثقافتی اور اقتصادی خود مختاری ان کی ترقی سے متصادم ہے۔ آپ خود ان باتوں کو آج سن رہے ہیں۔ عالمی تبلیغاتی سرگرمیوں سے باخبر افراد جانتے ہیں کہ دنیا میں تھنک ٹینک کے نام پر اور فلسفیانہ نظریات کے نام پر یہ باتیں پھیلائی جاتی ہیں۔ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو ملکوں کے اندر منجملہ ہمارے ملک کے اندر بھی، ان کی انہی باتوں کا خوب پرچار کرتے ہیں کہ اگر کوئی ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا چاہتا ہے تو خود مختاری کی خواہش اور جذبے کو دبا دینے پر ناچار ہے۔ اسے اپنے اندر استقلال و خود مختاری کے جذبے کو کمزور کرنا پڑے گا۔ ورنہ یہ دونوں باتیں ایک ساتھ ممکن نہیں ہیں کہ کوئی ملک خود مختار بھی رہے، صرف اپنے داخلی وسائل اور ذخائر پر تکیہ کرے اور اس کے ساتھ ہی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا حصہ بھی بن جائے۔ یہ خیال بالکل غلط، بے بنیاد اور ان لوگوں کے دماغ کی اپج ہے جو دنیا کے ملکوں کو خود مختار نہیں دیکھنا چاہتے۔ مداخلت پسند بڑی طاقتوں کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے ملکوں کے اندر داخلی امور میں مداخلتیں کرکے اپنا الو سیدھا کریں خواہ اس کے لئے ان ملکوں اور قوموں کے مفادات کو پامال کرنا اور کچلنا ہی کیوں نہ پڑے۔ ان کی نظر میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان کا اصرار اس بات پر ہے کہ وہ مداخلت ضرور کریں گی۔ شاہی حکومت کے دور میں ایران میں بھی یہی صورت حال تھی۔ کس سے رابطہ رکھنا ہے، کس سے رابطہ نہیں رکھنا ہے، تیل کسے فروخت کرنا ہے، کس مقدار میں فروخت کرنا ہے، آمدنی کو کیسے خرچ کرنا ہے۔ کس عہدے پر کسے منصوب کرنا ہے، کسے نہیں منصوب کرنا ہے، ان مسائل میں غیر ملکی طاقتیں آشکارا مداخلت کرتی تھیں۔ ایسا ملک در حقیقت ان طاقتوں کا ایک ادارہ اور ان کے مفادات کا پہرے دار بن کر رہ جاتا ہے، خود اس ملک کے قومی مفادات پس پشت ڈال دئیے جاتے ہیں۔ ملک چلانے والے عہدیداروں کی توجہ اب قومی مفادات کی حفاظت پر نہیں، مداخلت پسند طاقتوں کے مفادات کی نگرانی پر مرکوز رہتی ہے۔ جب خود مختاری مل جاتی ہے تو پھر اس خیانت آمیز اور غلط طرز عمل پر روک لگ جاتی ہے، اس کا سد باب ہو جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کی خود مختاری کا مطلب و مفہوم یہ ہے ۔ خود مختاری کا مطلب ساری دنیا سے تعلقات خراب کرنا نہیں ہے۔ خود مختاری کا مطلب ہے دیگر ممالک کے نفوذ اور مداخلتوں کو روکنے کے لئے ایک ایسا حصار قائم کرنا کہ یہ ممالک اس قوم کے مفادات کو اپنے مفادات پر قربان نہ کرنے پائیں۔ یہ ہے خود مختاری کا مفہوم اور یہ چیز کسی بھی ملک کے لئے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔
ہمارے اسلامی انقلاب کی خود مختاری میں جو چیز مددگار ثابت ہو سکتی ہے وہ انقلاب کے اصولوں کی اعلانیہ پابندی اور اس پر عمل کرنا ہے۔ انقلاب کے اصولوں پر، انقلاب کی بنیادوں پر اور انقلاب کے اقدار پر شفاف اور صریحی انداز میں عمل کیا جائے۔ حضرت امام خمینی (رہ) کا یہی انداز تھا۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے انقلاب کی تحریک کے آغاز سے ہی اپنی باتوں کو صریحی اور دو ٹوک انداز میں بیان کر دیا اس میں کوئی ابہام نہیں رہنے دیا۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے پہلے ہی دن سے طاغوتی، موروثی، استبدادی سلطنتی نظام کی مخالفت کی۔ آپ نے اس سلسلے میں کوئی رواداری نہیں رکھی۔ شروع ہی سے واضح ہو گیا کہ امام خمینی (رہ) ایک عوامی نطام اور سسٹم قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ سلطنتی نظام ناقابل قبول ہے، استبدادی نظام ناقابل تحمل ہے، غیر جمہوری نظام ناقابل قبول ہے، ان باتوں کو حضرت امام خمینی (رہ) نے واضح الفاظ میں بیان کیا، کوئی پردہ پوشی نہیں کی۔ حضرت امام خمینی(رہ) نے کھلے الفاظ میں فرمایا کہ اسلامی نظام تشکیل پانا چاہیے جو اسلامی افکار اور اسلامی اقدار پر استوار نظام ہو۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے کبھی اسے چھپانے اور پوشیدہ رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ امام خمینی (رہ) نے اسی طرح ساری دنیا پر اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لئے کوشاں خطرناک صیہونی نیٹ ورک سے مقابلے کے مسئلہ کو بھی بغیر کسی شک و تردید کے بیان کیا اور کچھ بھی چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ آپ نے صیہونزم کے خلاف اعلانیہ طور پر مؤقف اختیار کیا۔ امام خمینی (رہ) نے صیہونی حکومت کے سلسلے میں جو جعلی اور غاصب حکومت ہے اور مظلوم فلسطینی سرمین پر قابض ہے، صریحی مؤقف اختیار کیا۔ کسی طرح کی پردہ پوشی نہیں کی۔ یہ باتیں اصول اور اہداف کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ہم تسلط پسندانہ اور توسیع پسندانہ نظام کے مخالف ہیں امام خمینی (رہ) نے اس کی کبھی پردہ پوشی نہیں کی۔ توسیع پسندانہ نظام یعنی وہ عالمی نظام جو دنیا کو استعماری ممالک اور نوآبادیات جیسے دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش میں ہے، حضرت امام خمینی (رہ)نے آشکارا طور پر اس کی نفی کی۔ یہ توسیع پسندانہ نظام آج ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کی صورت میں پوری طرح مجسم ہے اور اس نظام کی مکمل تصویر امریکی حکومت ہے۔ لہذا امام خمینی (رہ) نے امریکہ کے سلسلے میں کھل کر اپنے موقف کا اعلان کر دیا۔ امریکہ کے سلسلے میں ہمارا جو مؤقف ہے اس کا قضیہ یہ نہیں ہے کہ امریکہ بھی ایک قوم ہے اور ہم اس قوم کے مخالف ہیں یا کوئی نسلی معاملہ ہے جو اس قضیہ میں اثرانداز ہو رہا ہے۔ معاملہ یہ نہیں ہے۔ اصلی قضیہ یہ ہے کہ امریکی حکومت کی ذات، کردار اور انداز، مداخلت اور توسیع پسندی پر استوار ہے۔ حضرت امام خمینی (رہ)نے اس سلسلے میں دو ٹوک انداز میں اپنا مؤقف بیان کر دیا۔ اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ اسلامی انقلاب پینتیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اپنے اصولوں، اصلی بنیادوں اور اس پٹری پر قائم ہے جو اس کے لئے تیار کی گئی تھی۔ انقلاب میں تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ انقلاب نے اپنا راستہ تبدیل نہیں کیا، اپنے اہداف نہیں بدلے، یہ بہت اہم بات ہے۔ دنیا میں آنے والے انقلاب معمولی طوفانوں کا سامنا ہونے پر اپنی استقامت کھو بیٹھتے ہیں۔ ایسی صورت میں بہت سے افراد اپنی بات بدل لیتے ہیں یا اپنا راستہ تبدیل کر لیتے ہیں یا پھر پوری طرح نابود ہو جاتے ہیں، محو ہو جاتے ہیں۔ تاہم اسلامی انقلاب جب سے وجود میں آیا ہے اس وقت سے لیکر اب تک، اپنے مقررہ اہداف کی حفاظت و پاسداری کرتا آیا ہے، ان اہداف کی جانب اس کی پیش قدمی کا عمل پیہم و مسلسل جاری رہا ہے، اس انقلاب نے مختلف شعبوں میں حیرت انگیز پیشرفت حاصل کی ہے اور ایران خود کو دنیا کی بے اثر اور ناقابل ذکر ریاست سے علاقے کی ایک اہم طاقت اور عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے والی قوت میں تبدیل ہوگیا ہے۔ دنیا کے گوشہ و گوشہ میں آباد قومیں آج ایرانی قوم کو ایک شجاع قوم، صداقت پسند قوم، باہوش اور دانشور قوم اور ثابت قدم و پائدار قوم کے طور پر پہچانتی ہیں۔ حالانکہ اسلامی جمہوری نظام کے خلاف وسیع پیمانے پر زہریلا پروپیگںڈہ پھیلایا گیا ہے، اس کی حیثیت خراب کرنے کی کوششیں اور تبلیغاتی کارروائیاں انجام دی گئی ہیں۔ ایک عرصے تک ایرانی قوم کے دشمنوں کے تبلیغاتی و سیاسی اداروں نے ایرانوفوبیا پھیلانے اور اسلام و ایران کو خطرے کے طور پر پیش کرنے کی پالیسی اپنائی لیکن دنیا میں ایرانی عوام کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ آج دنیا کے صرف عوام ہی نہیں بلکہ غیر جانبدار خواص اور اہم شخصیات بھی ایران کےگرویدہ ہیں۔ آپ ان کے بیان دیکھئے، ان کی تحریریں پڑھئے، ایرانی قوم کے بارے میں جو نظریہ قائم کیا جاتا ہے اس کے مطابق یہ ثابت قدم، دانشمند، متحمل مزاج اور پائدار قوم ہے۔ ایرانی قوم کو اس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایران کو خطرہ بنا کر پیش کرنے کی ان کی پالیسی اور منصوبہ بندی کا یہ نتیجہ نکلا ہے۔ آج دنیا کی قومیں اسلامی جمہوری نظام اور ایرانی قوم سے خائف نہیں ہیں، یہ قومیں امریکی تسلط سے ہراساں ہیں۔ دنیا میں ظلم وجبر اور استبداد کے سلسلے میں امریکہ بدنام ہے۔ دیگر ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کے سلسلے میں امریکہ مورد الزام ہے، جنگ پسندی کے لئے امریکہ بدنام ہے۔ دنیا کی قومیں امریکہ کو ایک جنگ پسند، تشدد کی آگ بھڑکانے والا اور دیگر اقوام کے داخلی امور میں مداخلت کرنے والا ملک مانتی ہیں۔ قوموں کو خوف امریکہ سے ہے، ان کی نظر میں نفرت انگیز ملک امریکہ ہے۔ جبکہ توفیق خداوندی سے اسلامی جمہوریہ ایران کا چہرہ روز بروز زیادہ تابناک اور دنیا میں ایرانی قوم ہر دن زیادہ باوقار ہوتی جا رہی ہے۔ ان شاء اللہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ انقلاب کے لئے بچھائی جانے والی پٹری پر اور حضرت امام خمینی (رہ) کے خطوط پر اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے قائم و دائم رہنے کا راز یہی صراحت اور آشکارا مؤقف ہے۔ کبھی بھی اس انداز اور دو ٹوک مؤقف کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ مخالفین ہوں، دوست ہوں، دشمن ہوں سب کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کا مؤقف واضح اور شفاف رہنا چاہیے۔ آپ طرز عمل میں تبدیلی اور تغیر کر سکتے ہیں، آپ حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں لیکن جو بنیادی اصول ہیں وہ ہمیشہ اپنی اصلی شکل میں باقی رہنے چاہییں۔ یہ انقلاب کے استحکام اور ملک کی ترقی کا راز ہے۔
وہ کون لوگ ہیں جنہیں آج ہمارے انقلاب سے عداوت اور دشمنی ہے؟ دنیا کی وہ چند بدعنوان طاقتیں انقلاب کی دشمن ہیں جو ہر طرف بدنام اور رسوا ہیں۔ یہی ایرانی قوم کی دشمن ہیں۔ جبکہ ایرانی عوام کے دوستوں میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلامی انقلاب کا پیغام اور اسلامی جمہوری نظام کا پیغام سنا ہے۔ ممکن ہے کہ ایسے لوگ بھی ہوں جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نعروں اور پیغاموں کو نہ سنا ہو لیکن جس نے بھی یہ پیغام سنا ہے، جسے بھی اسلامی جمہوریہ کی استقامت و پائداری کا علم ہے، جسے بھی مظلومیت کے عالم میں قائم رہنے والی ثابت قدمی کا علم ہے وہ اسلامی جمہوریہ ایران کا حامی اور خیر خواہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران یعنی ایران کے عوام، یعنی ایرانی قوم اور ایرانی عوام اسلامی نظام سے جدا نہیں ہیں، عوام ہی تو اس نظام کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور یہی اس نظام کی مضبوطی اور استحکام کا راز بھی ہے۔
امریکی حکام ہمارے عہدیداروں سے ملاقاتوں میں جو باتیں کرتے ہیں اور ان کے بیانات میں بھی جو باتیں کہی جا رہی ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ ہم ایران کے نظام حکومت کو تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ان کا سفید جھوٹ ہے۔ اگر ان کے بس میں ہو تو ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کریں گے اور پہلی فرصت میں اس نظام کی بنیادوں کو منہدم کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایران کے نظام حکومت کو تبدیل کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ استکباری طاقتیں صرف ان نظاموں کو بدل سکتی ہیں جو عوامی ارادوں اور حمایت پر استوار نہ ہوں۔ اسلامی جمہوری نظام تو عوام کے ایمان و عزم پر قائم ہے، عوام کی قلبی وابستگی اور دلی محبت پر استوار ہے۔ دنیا میں کون سا انقلاب ہے کہ دسیوں سال گزر جانے کے بعد بھی عوام سڑکوں پر نکل کر اور مضبوط و محکم انداز میں نعروں کی گونج کے کے ذریعہ انقلاب کی سالگرہ کا جشن مناتے ہوں؟ لیکن آپ آئندہ گیارہ فروری مطابق 22 بہمن انقلاب اسلامی کی سالگرہ کے موقع پر مشاہدہ کریں گے کہ ایرانی عوام کس طرح اس سال بھی پورے استحکام اور بھرپور اعتماد کے ساتھ سڑکوں پر نکلیں گے، نعرے لگائیں گے اور اپنے استحکام و ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں گے اور اپنی قومی طاقت کے شاندار جلوے اور عظیم مناظر پیش کریں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایرانی عوام یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ ان کی کامیابی کا راز استقامت و پائداری ہے اور الحمد للہ ایرانی قوم کو اس کا اچھی طرح اندازہ بھی ہے۔ عوام یہ بات بھی یاد رکھیں کہ ان کے تحفظ اور سکیورٹی کا بہترین راستہ قومی طاقت و قوت کی نمائش ہے۔ قومی طاقت و اقتدار کے کچھ مظاہر ہیں۔ عوام کے یہ عظیم اجتماعات، گیارہ فروری کو نکلنے والی ریلیوں جیسے پروگرام، انتخابات وغیرہ اس کے مظاہر ہیں۔ ان مواقع پر عوام اپنی شراکت و حمایت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ علمی پیشرفت میں بھی اس قوت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کی جس طرح عوام کی طرف سے پشت پناہی ہوتی ہے وہ قومی اقتدار کا آئینہ ہے۔ قومی طاقت و اقتدار ملکی سلامتی کی ضمانت اور حفاظت کا مظہر ہے۔ جب عوام اپنی بھرپور شراکت و موجودگی سے قومی قدرت و اقتدار کی نمائش کرتے ہیں تو پھر دشمن کے اندر یہ ہمت باقی نہیں رہ جاتی کہ کوئی حماقت کرنے کے بارے میں کچھ غور و فکر کرے۔
بڑےافسوس کا مقام ہے کہ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے دشمن کی جانب سے ایسی باتیں کی جا رہی ہیں جو ہمارے عوام کے لئے باعث عبرت ہیں۔ آج کل جو مختلف قسم کے مذاکرات ہو رہے ہیں اور ان مذاکرات پر ہمارے عوام کی گہری نظر ہے، ایرانی عوام امریکی حکام کے گستخانہ اور غیر مؤدبانہ بیانات پر غور کریں، دشمن کے مؤقف کا جائزہ لیتے رہیں۔ بعض عناصر ہیں جو دشمن کے عناد اور معاندانہ اقدامات سے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ یہ مناسب نہیں ہے، معاندانہ حرکتوں پر نظر رکھنی چاہیے، دشمن کی متضاد روش کا جائزہ لینا چاہیے۔ امریکی حکام ہمارے ملک کے عہدیداروں سے دروازوں کے پیجھے انجام پانے والی ملاقاتوں میں کسی اور انداز سے گفتگو کرتے ہیں لیکن دروازے سے باہر نکلتے ہی اور ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہی ان کا انداز بیان اور لب و لہجہ بالکل تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایرانی عوام دشمن کے اس دوہرے معیار اور اس کی مذموم بدنیتی کو دیکھتے رہیں، اس پر نظر رکھیں۔ اس بات پر توجہ رکھئے کہ ملک کو اپنی داخلی توانائی اور قوت کی حفاظت کی کتنی ضرورت ہے۔ میں اپنے ملک کے حکام سے ہمیشہ یہ سفارش کرتا ہوں۔ ملکی مشکلات کا ازالہ صرف اس طرح ہو سکتا ہے کہ اپنی داخلی اور مقامی توانائیوں اور صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کی جائے اور ان توانائیوں سے مدبرانہ اور دانشمندانہ طور پر استفادہ کیا جائے۔ الحمد للہ ہماری یہ اندرونی توانائیاں بیشمار اور بہت وسیع ہیں۔ الحمد للہ اقتصادی شعبہ کے حکام کی توجہ اس نکتے پر ہے اور وہ اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملک کی اقتصادی مشکلات کو دور کرنے کا راستہ بیرونی ممالک اور اغیار سے امید وابستہ کرنا نہیں ہے، دشمن کی اقتصادی پابندیوں کو ختم کرانے سے ہی ساری توقعات وابستہ کر لینا نہیں ہے۔ معاشی شعبے کے حکام اس حقیقت سے اچھی طرح باخـر اور آگاہ ہیں۔ بنیادی راہ حل یہ ہے کہ ہم اپنی داخلی توانائیوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ مبذول کریں، ملک کی داخلی معاشی ساخت کو مضبوط بنائیں، اس سلسلے میں ضروری فیصلے بھی کئے جا چکے ہیں اور انشاء اللہ یہی طریقہ کار کامیابی کی طرف لے جائے گا اور اسی میں کامیابی ملے گی۔ دشمن سے امید لگانا بے فائدہ ہے، دشمن سے توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہییں۔ امریکی اپنے بیانات میں اور لفاظی میں تو بعض اوقات کہتے ہیں کہ ہم ایرانی عوام کے دوست ہیں۔ لیکن وہ اس سلسلے میں سراسر جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان کے اس جھوٹ کا اندازہ ان کے اقدامات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ وہ ایران کو دھمکیاں بھی دیتے ہیں اور یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی دفاعی قوت کو محدود کرے۔ کیا یہ بات مضحکہ خیز نہیں ہے؟ کیا یہ تمسخر نہیں ہے؟ ایک طرف دھمکیاں بھی دے رہے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنی دفاعی طاقت کم کیجئے! ہرگز نہیں، اللہ تعالی کی توفیق اور مدد سےہمارے مختلف شعبوں کے حکام اور ہماری مسلح فورسز روز بروز اپنی دفاعی قوت میں اضافہ کرتی رہیں گی۔
داخلی توانائیوں پر تکیہ کرنے کی صورت میں اسلامی جمہوریہ ایران کو کامیابی حاصل ہوگی ، ایرانی قوم کو اقتصادی شعبے میں بھی، گوناگوں ثقافتی و سماجی شعبوں میں بھی اور ثقافتی میدان میں بھی کامیابی نصیب ہوگی۔ انشاء اللہ آنے والے چند ایام کے دوران مزاحمتی معیشت سے متعلق پالیسیوں کا حکم بھی صادر کر دیا جائے گا اور حکم ابلاغ ہونے ہو جانے کے بعد انشاء اللہ عوام کی مزاحمتی طاقت پر استوار مزاحمتی معیشت کے لئے ضروری اقدامات، تعمیراتی اقدامات اور کوششیں انجام دی جائیں گی اور قوم اپنے اس سفر کو جاری رکھے گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے عوام اپنا اتحاد قائم رکھیں۔ عوام، حکام، ممتاز شخصیات سب مل کر یہ کوشش کریں کہ فروعی اور جزوی مسائل اصلی امور کو نظر انداز ہونے کا سبب نہ بنیں۔ آج قوم حقیقت میں جس ہدف کی جانب گامزن ہے وہ داخلی اقتدار و قوت میں اضافہ کا ہدف ہے، وہ طوفانوں کے سامنے ڈٹ جانے اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کا ہدف ہے۔ گذشتہ پینتیس سال میں مختلف قسم کے بڑے طاقتور طوفان آئے اور ایرانی قوم نے الحمد للہ سب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان برسوں کے دوران دشمن کی سازشوں کو بار بار ناکام بنایا اور شکست سے دوچآر کیا۔ انشاء اللہ آئندہ بھی یہ قوم ان سازشوں کو اسی طرح ناکام بناتی رہے گی۔ عوام اپنے اتحاد کی حفاظت کریں۔ قوم اور حکام کے درمیان اتحاد و ہمدلی میں روز بروز اضافہ ہو۔ ملک کے حکام اور اعلی عہدیدار عوام پر اعتماد کریں اور عوام کو اپنے حکام پر پورا اعتماد اور بھروسہ ہو۔ ممکن ہے کہ بعض افراد جو تنقید کی صلاحیت رکھتے ہیں تنقیدیں بھی کریں۔ لیکن تنقید منصفانہ ہونا چاہیے۔ موجودہ حکومت ابھی چند مہینے پہلے ہی تشکیل پائی ہے۔ اسے موقعہ دیا جانا چاہیے تاکہ وہ کاموں کو مضبوطی کے ساتھ انجام دے۔ تنقید کرنے والے افراد بھی اس پر توجہ دیں اور حکومت کے سلسلے میں وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں اور حکام بھی تنقیدیں کرنے والے افراد کے سلسلے میں شرح صدر کا مظاہرہ کریں۔ سب ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ ہمارے کچھ دشمن ہیں اور ملک کے اندر بھی ان دشمنوں کے کچھ عناصر موجود ہیں۔ اس بات سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ ملک کے اندر موجود ان عناصر کو ہرگز یہ موقعہ نہ دینا چاہیے کہ وہ خامیوں سے غلط فائدہ اٹھائیں اور ملک کے اندر انتشار اور بحران پیدا کریں۔ سب ایک ساتھ، ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کریں، سب حضرت امام حمینی (رہ) کے راستے پر آگے بڑھتے ہوئے ملک کے استحکام اورمضبوطی اقدامات عمل میں لائیں۔ انشاء اللہ خداوند عالم ایرانی قوم کی مدد اور نصرت کرے گا اور جملہ امور اچھے اور احسن طریقہ سے انجام پذیر ہوں گے اور آج بھی انشاء اللہ تمام مسائل میں چاہے وہ ایٹمی مسئلہ ہو یا دیگر مسائل ہوں ایرانی قوم کو اللہ تعالی کی مدد اور توفیق سے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوگا۔
اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ آپ جہاں بھی خدمت میں مصروف اور مشغول ہیں، فضائیہ میں یا اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے کسی بھی شعبہ میں یا ایرانی قوم کے درمیان کسی بھی جگہ ، وہ آپ سب کو کامیاب کرے۔ آپ سب کامیابی سے اپنے فرائض انجام دیں۔ اللہ ہم سب کو اپنے فرائض پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنے وطن عزیز، اپنے نظام اور عوام کے لئے بہترین اور تابناک مستقبل کی ضمانت قرارپائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔جنرل حسن شاہ صفی
2- سورہ فتح آیت 29
3- رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل فضائیہ کے اعلی کمانڈروں کی شرکت سے ایک پروگرام منعقد ہوا۔